Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

میاں بیوی: دکھ سُکھ کے ساتھی

ماہنامہ عبقری - ستمبر 2014ء

یہ تحقیق ان شادی شدہ جوڑوں کیلئے ایک انتباہ ہے جس میں ایک فریق تو بالکل صحت مند رہے تاہم دوسرا فریق جسمانی عوارض میں لاحق ہے۔ ایسے جوڑوں کو چاہیے کہ وہ فوراً اس بات کا نوٹس لیں اور حفظان صحت کے اصولوں پر نہ صرف سختی سے عمل کریں بلکہ کسی اچھے معالج سے علاج بھی کروائیں
عائشہ مظفر‘ لاہور

شادی کو دو روحوں کے ملاپ کا نام دیا جاتا ہے ا ور جب مقدس بندھن میں بندھ کر دو جسم اور دو روحیں ایک ہوجاتی ہیں تو ان کی پسند ناپسند سمیت تمام معاملات میں ذہنی شراکت بڑھنے لگتی ہے لیکن حال ہی میں ایک طبی تحقیق نے انکشاف کیا ہے کہ سماجی اور گھریلو معاملات میں میاں بیوی کی ذہنی ہم آہنگی تو ایک طرف رہی‘ شادی شدہ جوڑے ایک جیسے امراض کا شکار بھی ہوجاتے ہیں‘ کیوں ہے نا نئی بات برٹش میڈیکل جرنل میں شائع شدہ اس تحقیق کے نتائج میں بتایا گیا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان امراض میں شراکت کو جاننے کیلئے آٹھ ہزار شادی شدہ جوڑوں کا تفصیلی طبی جائزہ لیا گیا جس کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ افراد جن کے شریک حیات میں سے کوئی ایک ہائی کولیسٹرول‘ ہائی بلڈپریشر‘ دمہ ‘ ذہنی دباؤ‘ پیٹ کے السر اور اس طرح کے دیگر جسمانی عوارض میں مبتلا ہوتے ہیں‘ ان کے شریک حیات کو بھی عموماً یہی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں تاہم بعض کیسوں میں شادی شدہ جوڑے میں سے کسی ایک فرد کو ان عوارض سے ہونے والی طبی پیچیدگیوں کے خطرات دوگنے بھی ہوجاتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میاں بیوی میں ہی امراض کی شراکت اس حد تک کیوں ہوتی ہے اور دوسروں میں کیوں نہیں ہوسکتی؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے تحقیق میں کہا گیا ہے کہ’’میاں بیوی ایک ہی جیسے ماحول میں زندگی بسر کرتے ہیں‘ ایک ہی گھر میں رہتے ہیں ایک جیسی خوراک استعمال کرتے ہیں ایک ساتھ کھانا کھاتے ہیں‘ ایک ہی گلاس میں پانی پیتے ہیں‘ حتیٰ کہ ایک ہی بیڈروم‘ باتھ روم اور کچن بھی استعمال کرتے ہیں اس طرح ایک کے جراثیم‘ الرجین اور بیکٹیریا انہیں کسی دوسرے کے مقابلے میں زیادہ متاثر کرتے ہیں میاں بیوی کے مشترک امراض کے علاج کے سلسلے میں شہرت یافتہ برطانوی ڈاکٹر جیکوئیس کارٹر کا کہنا ہے’’یہ تحقیق ان شادی شدہ جوڑوں کیلئے ایک انتباہ ہے جس میں ایک فریق تو بالکل صحت مند رہے تاہم دوسرا فریق جسمانی عوارض میں لاحق ہے۔ ایسے جوڑوں کو چاہیے کہ وہ فوراً اس بات کا نوٹس لیں اور حفظان صحت کے اصولوں پر نہ صرف سختی سے عمل کریں بلکہ کسی اچھے معالج سے علاج بھی کروائیں اور اس سلسلے میں صحت مند فریق بھی اپنا معائنہ کروا کر یہ جاننے کی کوشش کرے کہ کہیں وہ شریک حیات کو لاحق امراض کا شکار تو نہیں ہورہا ہے۔ بدقسمتی سے دوسرا فریق بھی امراض کا شکار پایا جائے تو اسے بھی باقاعدگی کے ساتھ اپنا علاج کروانا چاہیے۔ تاہم اگر ایسا نہ ہواور بیماری بھی ایسی ہو کہ جو جراثیم کے ذریعے پھیل سکتی ہو تو جوڑے کو جہاں تک ممکن ہو اس طرح کی چیزوں سے گریز کرنا چاہیے جس سے کہ یہ جراثیم انہیں بھی لگ سکتے ہیں۔ مثلاً ایک ہی گلاس برتن میں کھانا پینا وغیرہ۔ اس کے علاوہ انہیں گھر کے ماحول کو بھی حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق ہوادار روشن رکھنا چاہیے اور ہوسکے تو دن کے وقت کھڑکیوں اور کمروں کے دروازوں کو کھلا رکھ کر دھوپ اور قدرتی ہوا کے اندر آنے کا انتظام بھی کرنا چاہیے تاکہ ان کے بچے یا دیگر اہل خانہ ان کو لاحق امراض کے جراثیم کا شکار بننے سے محفوظ رکھ سکیں۔‘‘
تحقیق میں معاونت کرنے والی یونیورسٹی آف نوٹنگھم کی ڈاکٹر جولیا کا کہنا ہے کہ ’’ہم معالجین پر بھی زور دے رہے ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی ایسا شخص آئے جو کئی جسمانی عوارض کا شکار ہو اور وہ شادی شدہ بھی ہو اور ان کی شادی کو کئی سال بیت چکے ہوں تو ایسے مریض کے ساتھ ساتھ اس کے شریک حیات کا بھی مکمل طبی معائنہ کیا جائے یہ بات جاننے کی کوشش کی جائے کہ شریک حیات کی بیماری کے باعث وہ تو کہیں متاثر نہیں ہوا ہے۔ بعض اوقات ہمیں عوارض کا پتا ہی نہیں چل پاتا ہے اور ہم خود کو مکمل صحت مند سمجھ رہے ہوتے ہیں لیکن دراصل ہوتا یہ ہے کہ شریک حیات کے مرض کے جراثیم ہمارے جسم میں جگہ بنارہے ہوتے ہیں لیکن چونکہ اس سے قبل ہم بالکل صحت مند ہوتے ہیں‘ لہٰذا ہمارے جسم کا صحت مند مدافعتی نظام امراض کے جراثیم سے نبزد آزما ہوتا رہتا ہے لیکن جوں جوں مدافعتی نظام کمزور پڑتا جاتا ہے یہ عوارض بھی آہستہ آہستہ اپنی علامات ظاہر کرتے جاتے ہیں اور جہاں تک مریض کے شریک حیات یا فریق ثانی کا تعلق ہوتا ہے تو وہ ان علامتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے لیکن جب ان میں شدت آجاتی ہے تب وہ ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں اور افسوس کہ اس وقت تک بہت زیادہ دیر ہوجاتی ہے۔ اس پس منظر میں ہم ڈاکٹروں کو کہہ رہے ہیں کہ مریض کے ساتھ ساتھ اس کے شریک حیات کا معائنہ بھی کرلیا جائے تو بہتر ہے اس طرح ہم دوسرے فریق کی صحت کو متاثر ہونے سے بچانے کیلئے بروقت اقدام کرسکتے ہیں۔
معالجین اس بات سے متفق ہیں کہ علاج کیلئے جب مریض کو لایا جائے تو معالجین مریض کے شریک حیات کا‘ اس بیماری کے حوالے سے جو مریض کو لاحق ہے ‘ اسکریننگ ٹیسٹ ضرور کیا جائے۔ اس سے پہلے جو تحقیقات کی گئی تھیں وہ کسی خاص بیماری کے تناظر میں تھیں تاہم میاں بیوی کے مشترک امراض کے سلسلے میں مذکورہ تحقیق کا دائرہ کار نہایت وسیع ہے۔ اس سلسلے میں کیے گئے تمام طبی جائزوں اور تحقیق کی بنیاد وہ نظریہ بنا جس کے تحت معالجین نے امراض کی بنیاد اور ان کے پھیلاؤ کو روکنے اور مریض کے لواحقین خصوصاً شریک حیات بچوں اور جو اس خاندان میں رہتے ہیں کو بیماری سے بچانے پر سوچ بچار شروع کیا۔

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 056 reviews.